میں ہزار بار چاہوں کہ وہ مسکرا کے دیکھے





میں ہزار بار چاہوں کہ وہ مسکرا کے دیکھے
اُسے کیا غرض پڑی ہے جو نظر اُٹھا کے دیکھے

مرے دل کا حوصلہ تھا کہ ذرا سی خاک اُڑا لی
مرے بعد اُس گلی میں کوئی اور جا کے دیکھے

کہیں آسمان ٹُوٹا تو قدم کہاں رُکیں گے
جِسے خواب دیکھنا ہو ، وہ زمیں پہ آ کے دیکھے

اُسے کیا خبر کہ کیا ہے یہ شکستِ عہد و پیماں
جو فریب دے رہا ہے وہ فریب کھا کے دیکھے

ہے عجیب کشمکش میں مری شمعِ آرزو بھی
میں جَلا جَلا کے دیکھوں ، وہ بُجھا بُجھا کے دیکھے

اُسے دیکھنے کو میں نظر کہاں سے لاؤں ؟
کہ وہ آئینہ بھی دیکھے تو چُھپا چُھپا کے دیکھے



Post a Comment

0 Comments