نہ کوئی خواب نہ سہیلی تھی

نہ کوئی خواب نہ سہیلی تھی
اس محبت میں،میں اکیلی تھی

عشق میں تم کہاں کے سچےتھے
جو اذیت تھی ہم نے جھیلی تھی

یاد اب کچھ نہیں رہا لیکن
ایک دریا تھا یا حویلی تھی

جس نے الجھا کے رکھ دیا دل کو
وہ محبت تھی یا پہیلی تھی

میں ذرا سی بھی کم وفا کرتی
تم نے تو میری جان لےلی تھی

وقت کے سانپ کھا گئے اس کو
میرےآنگن میں اک چنبیلی تھی

اس شب غم میں کس کو بتلاؤں
کتنی روشن مری ہتھیلی تھی

Post a Comment

0 Comments