حیراں ہوں کہ یہ کونسا دستورِ وفا ہے

حیراں ہوں کہ یہ کونسا دستورِ وفا ہے
تو مثلِ رگِ جاں ہے تو کیوں مجھ سے خفا ہے

تو اہلِ نظر ہے تو نہیں تجھ کو خبر، کیوں؟
پہلو میں تیرے کوئی زمانے سے کھڑا ہے

لکھا ہے میرا نام، پانی پہ ہوا پہ
دونوں کی فطرت میں، سکوں ہے نہ وفا ہے

شکوہ نہیں مجھ کو، کہ ہوں محرومِ تمنّا
غم ہے تو فقط اتنا کہ تو دیکھ رہا ہے

ہم رکھتے ہیں دعویٰ کہ ہے قابو ہمیں دل پر
تو سامنے آ جائے تو یہ بات جدا ہے

Post a Comment

0 Comments