کیا جانے انہیں ہم کیا سمجھے، جو ان پہ بھروسہ کر بیٹھے



کیا جانے انہیں ہم کیا سمجھے، جو ان پہ بھروسہ کر بیٹھے
اُمید کے جھوٹے وعدے پہ دل نذرِ تمنا کر بیٹھے

ہم شوق کے ہاتھوں بےبس ہیں ، انجام سفر تو ظاہر ہے
اب جان پہ بنتی ہے تو بنے منزل کا ارادہ کر بیٹھے

اِک برق سی جیسے کوند گئی ، چٹکی جو کلی گلشن میں کہیں
جب اتنی بھی دل میں تاب نہیں،کیوں ضبط کا دعوا کر بیٹھے

جس آس سے دھڑکن تھی دل میں،جس آس سےنبضیں چلتی تھیں
وہ آس بھی قسمت چھین چکی ، ہم یہ بھی گوارا کر بیٹھے

Post a Comment

0 Comments