تمہیں ضد ہے کہ میں کہہ دوں

تمہیں ضد ہے کہ میں کہہ دوں
مجھے ضد ہے کہ تم کہہ دو
مجھے تم سے محبت ہے
کہو مجھ سے محبت ہے
نہیں یہ جانتے دونوں
محبت کب محتاج ہوتی ہے
لفظوں کی ،باتوں کی
محبت تو ہماری دھڑکنوں کے ساز میں شامل
سُریلے گیت کی مانند
محبت یاد کی دیوی
جو تنہا رات کو اکثر آتی ہے آنکھوں میں
محبت مسکراہٹ ہے
حسیں نازک سے ہونٹوں میں
محبت صندلی ہاتھوں کی
نازک لرزشوں میں ہے
محبت سوچ کی گہرائیوں سے پھوٹتی خوشبو
ہمیشہ ساتھ رہتی ہے
محبت آنکھ میں پلتا ہوا پُر اسرار سا جذبہ
جسے اب تک نہیں کوئی سمجھ پایا
نہ اس کی کوئی صورت ہے
نہ اس کا کوئی پیمانہ
ڈھکے الفاظ میں اس کا بہت اظہار ہوتا ہے
کچھ ایسے ہی کہ جیسے اب
تہہِ دل سے تو ہم دونوں اقرار کرتے ہیں
مگر پھر بھی نجانے کیوں
تمہیں ضد ہے کہ میں کہہ دوں
مجھے ضد ہے کہ تم کہہ دو
مجھے تم سے محبت ہے
کہو مجھ سے محبت ہے

Post a Comment

0 Comments