منسوب تھے جو لوگ میری زندگی کے ساتھ

منسوب تھے جو لوگ میری زندگی کے ساتھ
اکثر وہی ملے ہیں بڑھی بے رخی کے ساتھ


ہوں تمھارے لئے مگر یوں تو میں ہنس پڑا
کتنے ستارے ٹوٹ پڑے اک ہنسی کے ساتھ

فرصت ملے تو اپنا گریبان بھی دیکھ لے
اے دوست یوں نہ کھیل میری بے بسی کے ساتھ

مجبوریوں کی بات چلی ہے تو مے کہاں
ہم نے پیا ہے زہر بھی اکثر خوشی کے ساتھ

اک سجدہ خلوص کی قیمت فزاے خلد
یا رب نہ کر مذاق میری بندگی کے ساتھ

محسن کرم کے لئے بھی ہو جس میں خلوص بھی
مجھ کو غضب کا پیار ہے اس دشمنی کے ساتھ

Post a Comment

0 Comments