آج میں نے اک خواب دیکھا
بکھرے بال آنکھوں کو شبِ خواب دیکھا
ٹوٹ رہے تھے میرے آنسو ایسے
گر تے ہوں پتے خزاں میں جیسے
کھو گئیں میری خوشیاں کہیں
حسرتوں کو اپنی ناتمام دیکھا
پاس کہیں آندھی تھی چل رہی
ذات کو اپنی شعلہِ طو فاں دیکھا
خاموش سی تھی زندگی میری
رک رہی تھی دھڑکن میری
غم بھی تھے کچھ روٹھے مجھ سے
جو سرِراہ خود کو نیلام دیکھا
پھر خوابِ درد سے اُٹھ کے
ٹوٹ کے خود کو روتے دیکھا
0 Comments