وہ دلاور جو سیاہ شب کے شکاری نکلے


وہ دلاور جو سیاہ شب کے شکاری نکلے
وہ بھی چڑھتے ہوئے سورج کے پجاری نکلے


سب کے ہونٹوں پہ مرے بعد ہیںباتیں میری!
میرے دشمن میرے لفظوں کے بھکاری نکلے


اک جنازہ اُٹھا مقتل سے عجب شان کے ساتھ
جیسے سج کر کسی فاتح کی سواری نکلے


ہم کو ہر دور کی گردش نے سلامی دی ہے
ہم وہ پتھر تھے جو ہر دور میں بھاری نکلے


عکس کوئی ہو خدوخال تمہارے دیکھوں
بزم کوئی ہو مگر بات تمہاری نکلے


اپنے دشمن سے میں بے وجہ خفا تھی سونو
میرے قاتل تو میرے اپنے حواری نکلے

 

Post a Comment

1 Comments